کورونا وائرس اور لاک ڈائون کے ازدواجی زندگی پر اثرات
کورونا وائرس کی عالمی وباء نے اب تک دنیا بھر میں 1.5 کروڑ سے زائد افراد کو اپنا شکار بنا لیا ہے۔ اس وائرس نے نہ صرف ذرائع معاش کو متاثر کیا ہے بلکہ وباء کے پھیلاؤ کے ڈر سے تعلیمی مراکز، دفاتر اور ہر قسم کے تفریحی مقامات بند ہونے کی وجہ سے عوام کو گھروں میں محصور ہونے پر بھی مجبورکردیا ہے۔
ماضی میں اس نوعیت کے پھیلنے والے وبائی امراض سارس اور ہسپانوی فلو کی وجہ سے بھی لوگوں کو قرنطینہ میں رکھا جا چکا ہے۔ ایسے وقت میں تمام دنیا سے کٹ کر صرف اپنے کنبے کے ساتھ لمبا وقت گزارنے سے نفسیات پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
لاک ڈائون کے اثرات
اکثر خواتین اپنے شوہروں سے وقت نہ دینے کا شکوہ کرتی نظر آتی ہیں ۔ اس وباء نے ان کی یہ شکایت دورکر دی ہے۔ اب مرد حضرات اپنا سارا وقت اپنے کنبے کے ساتھ گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ لیکن اس کے نتائج بھی کچھ زیادہ خوشگوار نظر نہیں آتے ۔ مردوں پر بے روزگاری کے خدشات اور تنخواہ میں کٹوتی کا ذہنی بوجھ جبکہ دوسری طرف پیشہ ورانہ خواتین کا گھر میں دفتر کے کام کے ساتھ ساتھ گھریلو کام کاج کا دباؤ اور بچوں کی گھر میں تعلیم کی ذمے داری جیسے مسائل نے دونوں فریقوں کو نفسیاتی کشمش کا شکار بنا دیا ہے۔ اس کے علاوہ کھانے پینے اور سونے کے اوقات میں تبدیلی نے بھی مزاج میں بے رخی اور عدم برداشت بڑھا دی ہے جس کی وجہ سے ازدواجی زندگی کا توازن قائم رکھنا ایک چیلنج بن گیا ہے۔
اس مسئلے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان حالات نے جہاں کچھ لوگوں کو اپنے کنبے سے بہت قریب وہاں اپنے دوست و اقارب سےدور کر دیا ہے ۔ ایک ہی انسان (شوہر/بیوی ) پر کُل انحصار کرنا یا اس سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرنا بھی گھریلو تنازعات کا ایک بڑا سبب ہے ۔
چائنیز یونیورسٹی آف ہانگ کانگ کے ماہرِ عمرانیات کےمطابق، کورونا وائرس سے نہ صرف معاشی مسائل بلکہ ازدواجی تنازعات میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ یورپ اور ایشاء کے جن ممالک میں لاک ڈاؤن لگایا گیا وہاں گھریلو تشدد کے واقعات تین گنا بڑھ گئے ۔ کچھ افراد نے گھریلو تنازعات اور معاشی مسائل سے نجات کے لیے سگریٹ اور دوسری نشہ آور چیزوں کا استعمال بھی بڑھا دیا ہے جس سے صحت پر منفی اثرات پڑنے کا خدشہ ہے ۔
لاک ڈائون میں خوش رہنے کے لیئے چند مشورے
٭ جو افراد سماجی فاصلے برقرار رکھتے ہوئے، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال کر کے، اپنے قریبی دوستوں سے روابط بنائے رکھیں، ان میں ڈپریشن اور دماغی دباؤ بڑھنے کے امکانات کافی حد تک کم ہو سکتے ہیں ،کیونکہ اکژ مشکلات اور پریشانی کے حل کے لیے دوستوں کے نقطئہ نظر اوران کے مخلص مشورے انسان کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں۔
٭ لاک ڈاون کے دوران بیشک آپ پر وقت کی پابندی کاکوئی زیادہ دباؤ نہیں ہے لیکن اگر اس کے باوجود بھی سونے اور جاگنے کے معمول سمیت دن کے سارے کام ٹھیک اپنے اوقات کے مطابق کیے جائیں، تو آپ کے مزاج پر اس کے مثبت اثرات رونما ہونگے۔
٭ بہت زیادہ ٹی۔وی دیکھنے اور موبائل کثرت سےاستعمال کرنے سے گریز کریں۔ اس کے بجائے کتابوں کے مطالعہ کو اپنے معمول کا حصہ بنایئے۔ مزید یہ کہ اپنی مہارت میں اضافے کے لیے کسی آن لائن کورس کا انتحاب کیجیئے جس سے آپ کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہو سکے۔
٭ اپنی خوراک پر خاص توجہ دیں۔ ایسے پھل اور سبزیوں کا استعمال کریں جو آپ کے مدافعتی نظام کو مظبوط بنائیں۔ بہت زیادہ تیل اور مصالحہ دار کھانوں سے پرہیز کریں جو وزن بڑھانے کا باعث بنیں ۔ مزید براں ہلکی پھلکی ورزش کو بھی معمول کا حصہ بنائیے جو کہ آپ کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ دماغی صحت کے لیے بھی بہتر رہے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس آزمائش نے معاشرے کے ہر فرد کو مختلف انداز سے متاثر کیا ہے جو ا ُس فرد کے مالی حالات، صحت، جذباتی پس منظر ، خاندان اور دوستوں کی مدد و حمایت اور اس جیسے دیگر عوامل پر منحصر ہے ۔ لیکن ان عوامل کے قطع نظر اگر انفرادی طور پر مناسب حکمتِ عملی اپنا کر مذکورہ بالا چند بنیادی باتوں کا خیال رکھا جائے تو باآسانی اس زحمت کو رحمت میں تبدیل کیاجاسکتا ہے۔