عام زبان میں جرم ہر اس غیر قانونی فعل کو کہا جاتا ہے جو کسی دوسرے فرد کو نقصان پہنچانے کی نیت سے کیا جائے۔کسی کی املاک پر زبردستی قبضہ، دھوکہ دہی، اور رازداری کی خلاف ورزی کرنے جیسے افعال کو روایتی جرائم سمجھا جاتا ہے ۔لیکن ٹیکنا لوجی میں جدت کے ساتھ ان جرائم کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی آتی جا رہی ہےاور نت نئی طرح کے جرائم جنم بھی لے رہے ہیں ۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی مدد سے کیئے جانے والے ان جرائم کو سائبر کرائم کہا جاتا ہے۔ موجودہ جدید اور ڈجیٹل دور میں ہماری شناخت (ورچوئل آئیڈینٹیٹی ) روزمرہ کی زندگی کا لازمی عنصر ہے ۔ ہم حکومتوں اور کارپوریشنوں کے زیر ملکیت متعدد کمپیوٹر ڈیٹا بیس میں نمبر اور شناخت کاروں کا ایک بنڈل ہیں۔ سائبر کرائم انہی معلومات اور اوصاف کے مجموعہ پر حملے اور انکی چوری کو کہا جاتا ہے ۔
جیسے جیسے دنیا بھر میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ویسے ہی سائبر کرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال کی اہمیت سے نا واقف ہے اور چند طرز عمل عام ہیں۔
سوشل میڈیا ایپس کا بے احتیاطی سے استعمال ایک بڑا خطرہ ہے۔ مثال کو طور پہ کچھ لوگ محض تفریح کی غرض سے ایسی ایپس ڈاؤن لوڈ کر لیتے ہیں جو یہ بتا سکیں کہ 5 سال بعد آپ کیسے نظر آئیں گے وغیرہ۔ان ایپس سے جو نتائج فراہم کیے جاتے ہیں وہ دراصل آپ ہی کی پروفائل سے لیئے گئے ہوتے ہیں جس کی اجازت آپ نے انجانے میں ایپ ڈاؤن لوڈ کرتے وقت دی تھی۔اور وہ تمام تفصیلات جو آپ نے پرائیوٹ رکھی تھیں اب وہ اس ایپ کے پاس منتقل ہو جاتی ہیں جو بعد میں کسی بھی بد نیتی پر مبنی مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں ۔ اس کے علاوہ میسنجر ، واٹس ایپ اور ایس ایم ایس پر کسی دوست احباب یا اجنبی کے مسیج میں عجیب اور غیر ضروری لنک کھولنے سے بھی فون میں وائرس ڈاؤن لوڈ ہوسکتے ہیں جن کی مدد سے فون کا ڈیٹا چُرایا جا سکتا ہے۔ آن لائن خریداری یا کوئی بھی فارم پُر کرتے وقت اگر اس بات کا خیال نہ رکھا جائےکہ اس ویب سائٹ کے URL میں https لکھا ہے یعنی اس میں اضافی S اس ویب سائٹ کے محفوظ ہونے کی نشاندہی کر رہا ہے یا نہیں تب بھی معلومات چوری ہوسکتی ہیں ۔ ہوٹلز، شاپنگ مالز وغیرہ میں ہیکر مفت انٹرنیٹ فراہم کر دیتے ہیں جو فون سے جڑتے ہی اس کا ساراڈیٹا چوری کر لیتا ہے۔ مزید یہ کہ گُوگل کے آفیشل پلے اسٹور سے اگر کوئی غیر تصدیق شدہ ایپس ڈاؤن لوڈ کی جائیں تو بھی موبائل میں مالوئیر ڈاؤن لوڈ ہو سکتے ہیں ۔
اگر مندرجہ ذیل چند باتوں کا خیال رکھا جائے تو اپنے ڈیٹا کی سیکیورٹی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔
اکاؤنٹ کا ایک الگ اور مشکل پاسورڈ ہونا چاہیئے جس کوکبھی بھی اپنے فون میں یا کہیں اور لکھ کر اسٹورنہیں کرنا چاہیئے۔
اپنے تمام اکاونٹس، بمع سوشل میڈیا، کے پاسورڈ ہر کچھ عرصے کے بعد بدلتے رہیں اور کسی کو نہ بتائیں۔ جہاں ہو سکے وہاں ملٹی فیکٹر آتھنٹی فیکیشن آن کریں۔
موبائل میں موجود تمام ایپس کو اپڈیٹ کرتے رہیں کیونکہ کتنی ہی بہترین ایپ کیوں نہ ہو اس میں پروگرامنگ بگس موجود ہونے کا خطرہ ہمیشہ رہتا ہے جس کا ہیکرز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایپ اپڈیٹ ہونے سے ان پروگرامنگ بگس کو ٹھیک کیا جاتا ہے۔
موبائل اور کمپیوٹر میں اینٹی وائرس سافٹ ویر انسٹال کریں۔ اس سے چھپ کر جاسوسی کرنے والی ایپ سپائی وئیر جو آپ کی تمام سرگرمیوں پر نظر رکھے، اس سے بچا جا سکتا ہے ۔
پبلک نیٹورک پہ انٹرنیٹ استعمال کرتے وقت ہمیشہ وی۔پی۔این سے کنکٹ کرنا چاہیئے اور گھر کے وائی فائی کنکشن کو پرائوٹ رکھنا چاہیئے۔
کسی بھی مشکوک لنک کو کھولنے سے پرہیز کریں خاص طور پہ اگر آپکو اس میں کسی لاٹری وغیرہ کی لالچ دی گئی ہو یا بنک کی اور دیگر مالی معلومات درج کرنے کو کہا گیا ہو۔
اپنے موبائل اور کمپیوٹر میں موجود خاص فائلوں کو کسی محفوظ جگہ پہ بھی اسٹور کریں تاکہ فائل کرپٹ ہونے کی صورت میں آپکے پاس بیک اپ ہو۔ غیر ضروری فائلیں ڈیلیٹ کریں۔
جب کوئی فون ہیک کر لیا جاتا ہے تو اس میں کچھ غیر معمولی حرکات دیکھی جا سکتی ہیں جیسے کہ فون کی کارکردگی کم ہو جانا، بہت زیادہ گرم ہونا، بیٹری جلدی ختم ہونا، انٹرنیٹ ڈیٹا کا پہلے سے زیادہ استعمال ہونا، خود سے ایپس ڈاؤن لوڈ ہو جانا ، اکاؤنٹس کے پاسورڈتبدیل ہو جانا وغیرہ۔ اگر آپ کو شک ہے کہ آپ کا فون یا کمپیوٹر ہیک کیا جا چکا ہے تو فوراً تمام مشکوک ایپس اور سافٹویئرز کو ڈیلیٹ کر دیں۔ تمام اکائونٹس کے پاسورڈ بدل دیں۔ موبائل کو فیکٹری ریسیٹ کر دیں اور کمپیوٹر فارمیٹ کر دیں۔ اگر ان باتوں کا خیال رکھا جائے اور انٹرنیٹ کے فوائد کے ساتھ ساتھ خطرات سے بھی آگاہ رہیں تو مستقبل میں بڑے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔ جیسے آپ اپنے گھر کی چابی کسی چور کو نہیں دینا چاہیں گے اور گھر میں آگ لگنے کے خطرات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کریں گے، اسی طرح اپنی ورچوئل آئیڈینٹیٹی یعنی آن لائن پہچان کی حفاظت کو بھی ترجیح دیں۔