جنسی زیادتی کی شکار، عورت کی خاموش پکار

ریپ، جنسی ہراسانی یا تشدد اور عصمت دری ایسے الفاظ ہیں جو زبان پر آنے سے پہلے ہی حلق میں اٹکنے لگتے ہیں کیوں کہ ہمارے معاشرے میں ان موضوعات پر بات کرنا برا سمجھا جاتا ہے اور دوسرے جرائم  کے مقابلے میں ان کو انتہائی غیر سنجیدگی سے لیا جاتا  ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، پاکستان میں ریپ کے صرف 41 فیصد کیس رپورٹ ہوتے ہیں ۔ پچھلے چھ سال میں جو 22 ہزار مقدمات درج ہوئے ہیں ان میں سے صرف 77 لوگوں پر جرم ثابت ہوا ہے۔ پاکستان میں  عصمت دری اور جنسی ہراسانی کے خلاف قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کم  ہوتا ہے۔ ان جرائم کی تعریف مبہم ہے اور ان پر دہائیوں  سے بحث جاری ہے۔ بہت لوگوں کے نزدیک یہ جرم صرف اس لیئے ہے کیوں کہ عورت سے منسلک افراد کی ذلت ہوتی ہے اور اس کی عظمت اور معاشرتی مستقبل کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ جبکہ حقیقتاً کسی فرد کی اجازت کے بغیر اس کی جسمانی سالمیت اور آبرو کی خلاف ورزی کرنا  اور اس سے ناجائز مطالبات کرنا اس کی خود مختاری کو پامال کرنے کے برابر ہے ۔ یہ صرف تشدد برائے تشدد یا ہوس نہیں بلکہ طاقت اور کنٹرول کا ناجائز استعمال ہے اور عموماً زیادتی کرنے والا کوئی جاننے والا ہی ہوتا ہے۔

عورت کا جسم اس کی روح کے لیئے ایک گھر کی مانند ہے اور جب  اس پر ڈاکے پڑنے کا ڈر ہو یا وہ زبردستی چھین لیا جائے تو وہ ذہنی اور جسمانی مسائل کا شکار ہو سکتی ہے۔ اکثر خواتین کچھ عرصے  تک صدمے،  خوف، الجھن اور بے بسی کے احساسات اور اضطراب میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ اس شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے خاتون کے لیئے سب سے بڑا چیلنج اس حادثے کو بیان کرنا ہوتا ہے۔ چناچہ وہ ایک ایسے شخص کا انتخاب کرتی ہیں جس پر وہ بھروسہ کرسکتی ہیں اور جو ان کی خاموشی بھی سمجھ سکے۔  وہ شخص یا تو خاتون کو زندگی کی جانب بڑھنے میں مدد دے سکتا ہے یا پھر ان کو ہی واقعہ کا ذمے دار ٹھہرا کر نادم اور شرمندہ کر سکتا ہے جس کی وجہ سے وہ معاشرے کے ڈر سے خود کو ملامت کرنے لگ سکتی ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو واقعہ کو رپورٹ کرنا  تو دور وہ  اپنی بے عزتی  کے ڈر سے دوبارہ کسی سے اپنی الجھن کا ذکر تک  نہیں کر پائیں گی اور اپنے اندر ہی اندر گھٹتی رہیں گی۔

وقت گزرنے کے ساتھ، اور خاص طور سے اپنے قریبی احباب کی لعنت ملامت پر، کچھ خواتین ڈپریشن کا شکار بھی ہو سکتی ہیں اور لوگوں سے زیادہ گھلنے ملنے یا نئے تعلقات بنانے سے گریز کرنے لگتی ہیں جبکہ کچھ خودکشی کو نجات کا ذریعہ سمجھنے لگتی ہیں ۔ ایک  عام مسئلہ پی-ٹی-ایس-ڈی ( پوسٹ ٹرامیٹک  اسٹرس ڈس آرڈر) کا ہے۔ یہ  ایسی ذہنی کیفیت ہے جس میں متاثرہ فرد کو کچھ خاص کپڑوں، بو، شور اور ہر وہ چیز جو واقعہ کی یاد دلاتی ہے، ان سے ڈر اور ناخوشگواری محسوس ہوتی ہے اور اس کے منفی اثرات نہ صرف خاتون کی اپنی ذاتی اور ازدواجی زندگی پر ہوتے ہیں بلکہ ان کے قریبی رشتے دار وغیرہ پر بھی اس کا گہرا اثر ہوتا ہے۔

a young woman protects herself by hand - ed-watch

 لہٰذا جب کوئی خاتون آپ سے ایسے واقعے کا  ذکر کریں تو ان کی بات پر یقین کریں اور ان کو قصور وار نہ ٹھہرائیں کیونکہ اپنے ساتھ زبردستی یا تشدد ہونے میں کبھی ان کی مرضی شامل نہیں ہوسکتی۔ انہیں راضی کریں کہ وہ ایک پیشہ ور ماہرِ نفسیات سے رجوع  کریں ۔  ان کو سب بھول جانے اور آگے بڑھنے کا نہ کہیں کیوں کہ یہ اتنا جلدی اور باآسانی ممکن نہیں۔ ان کے ساتھ آپ کا رویہ یا تو مزید خرابی کا باعث یا پھر ان کے لیئے امید کی کرن بن سکتا ہے اس لیئے ہمیشہ اپنے الفاظ چن کر بولیں۔ اگر خاتون کے ساتھ آپ کا تعلق قریبی ہو تب بھی، اور خاص طور سے ریپ کے بعد،  بغیر اجازت انہیں نہ چُھوئیں۔ وہ ایک ایسی ذہنی کیفیت سے گزر رہی ہوتی ہیں جہاں وہ خود سے نفرت  اور گھن محسوس کر سکتی ہیں۔ ایسے میں انسانی لمس ان کے لیئے ناخوشگوار ہوتا ہے ۔ حادثہ سے آگے بڑھنے  کے لیئے ضروری ہے کہ راہ فرار اختیار کرنے سے گریز کیا جائے اور خاتون اپنا ذہنی اور جسمانی طور پر خیال رکھیں۔ ذہنی سکون کے لیئے مراقبہ، یوگا اور ڈائری لکھنا  کارآمد ثابت ہوسکتا ہے اور جسمانی صحت کے لیئے مناسب نیند پوری کرنے اور ورزش پر دھیان دینا چاہیئے۔

ریپ اور جنسی ہراسانی جیسے جرائم کے خاتمے کے لیئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عورت کو واقعہ کا ذمےدار ٹھہرانے سے مجرم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور پہلے ہی ذہنی اور جسمانی مسائل سے دوچار عورت معاشرے میں بدنام ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں معاشرے میں اس منفی سوچ کے خلاف اور قوانین کے بارے میں آگاہی پھیلانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہم اس مسئلے پر قابو پا سکیں اور ان گنت خواتین کی زندگیاں خراب ہونے سے بچا سکیں ۔

 

author avatar
Noor Bano
محترمہ نور بانو نے کراچی یونیورسٹی سے ایم۔کام کی ڈگری لی ہے۔ان کا آغازِسحر کے نام سے ایک پرسنل بلاگ ہے جس میں وہ عوام کی آگاہی اور پاکستان کے مسائل وحل کے متعلق تحقیقی مضامین لکھتی ہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share this post

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related posts

break the bias - ed-watch
Vibrant Women from the Sub-continent

As the world celebrates women today and pledges to « Break the Bias » , it is important to take out a few moments to reflect on