کہا جاتا ہے کہ اخبار ایک قوم کی خود سے گفتگو کا نام ہے۔ یعنی وہ ایک قوم کو آئینہ دکھاتا ہے ۔ پاکستانی اخبارات تو معمولی رنجش پر سفاکانہ قتل و غارت گری اور تشدد جیسی افسوسناک خبروں سے بھرے نظر آتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات پیش آنے کی ایک بڑی وجہ ڈپریشن اور دماغی عارضے ہیں ۔ ضیاالدین یونیورسٹی اسپتال کراچی کے چند ڈاکٹروں کی 2019کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ڈپریشن کے شکار افراد کی تعداد 2 کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس اضافے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ایک وجہ ایسی بھی ہے جس پر بہت کم بات کی جاتی ہے اور وہ ہے بصری آلودگی ۔
یہ ایک جمالیاتی مسئلہ ہے۔ اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو قدرتی ماحول کا حصہ نہیں بلکہ انسان کی خود ساختہ ایسی تعمیرات ہیں جن پر نظر پڑنے سے انسان لطف اندوز ہونے کے بجائے ناگواری محسوس کرے۔ مثال کے طور پرجگہ جگہ نصب سائن بورڈ اور موبائل ٹاور، ابلتے گٹر، کچرے کے ڈھیر، لٹکتے تار، بے ترتیبی سے تعمیر کردہ بوسیدہ اور بے رنگ و رونق عمارتیں ، ملبہ اور ہر وہ چیز جو دیکھنے والے کو ناگوار لگے، وہ بصری آلودگی کا حصہ ہے۔
کلکتہ میں بصری آلودگی پر کی جانے والی ایک تحقیق سے اس آلودگی کا سب سے بڑا نقصان یہ سامنے آیا کہ ایک خاصی مدت اس ماحول میں گزار لینے کے بعد وہاں کے رہائشیوں نے اس ماحول کو قبول کرلیا تھا اور انہیں اس ماحول میں رہنے میں کوئی برائی نظر نہیں آتی تھی ۔ مزید براں بچپن سے ہی بصری آلودگی میں بڑے ہونے والے بچے جمالیاتی حس سے ناواقف تھے اور وہ بالآخر اس بدصورت ماحول کو بہتر کرنے کی اپنی فطری خواہش بھی کھو چکے تھے۔
اس تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا کہ بصری آلود زدہ علاقے کے رہائشیوں میں آنکھوں اور یاداشت کے امراض پائے جا سکتے ہیں۔ اور نیند میں کمی کی شکایات عام ہوتی ہیں۔ ابلتے ہوئے گٹر اور کچرے کے ڈھیر کی وجہ سے مزید صحت کے مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ سڑکوں پر جگہ بے جگہ نصب چمکیلے اور رنگین سائن بورڈ ڈرائیوروں کی توجہ ہٹانے کا بھی باعث بن سکتے ہیں جس کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے ہیں۔ بجلی کے کھمبے اور ان سے بے ترتیبی سے لٹکتے تار انسانی اور حیوانی زندگی کے لیے خطرے کا باعث تو بنتے ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بصری ماحول کو آلودہ بھی کرتے ہیں ۔ ہر جگہ ایک جیسے بینر اور بے ترتیبی سے بنی بدنما عمارتوں کی وجہ سے شہر اپنی انفرادیت بھی کھو دیتا ہے۔
یہ سارے وہ عوامل ہیں جنہیں عام طور پر جسمانی نقصان کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن مختلف مطالعات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ عوامل ڈپریشن کی شروعات ہونے یا بڑھنے کی ابتدائی وجوہات بنتے ہیں کیونکہ اس طرح کے ماحول کا اثر لاشعوری طور پر انسان کی شخصیت اور دماغ پر پڑتا ہے۔ نائیجیریا میں مختلف طرح کی آلودگی کے اوپر تحقیق کے مطابق بصری آلودگی کا سامنا کرنے والے انسان کے ایڈرینالین میں اضافہ ہوتا ہے جو پیٹ کی تیزابیت کو بڑھاتا ہے اور دل کی شرح کو تیز کرتا ہے جو کہ مزاج میں چڑچڑا پن اور منفی جزبات اکسانے کا باعث بنتا ہے۔ اس طرح کا ماحول انسان کو اس کے قائم کردہ ہدف سے توجہ ہٹانے کی ایک بڑی وجہ ہے یعنی انسان اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پوری طرح سے استعمال میں نہیں لا سکتا۔ مزید یہ کہ بصری آلودگی مجموعی فلاح و بہبود کو متاثر کرتی ہے جس کے نتیجے میں معاشرے کا معیار زندگی ، جمالیاتی حِس ، معاشی صحت اور تمدنی شعور متاثر ہوتا ہے۔
اس کے بر عکس قدرتی ماحول جیسے کہ ایک بہت بڑا باغ ، جنگل ، پہاڑ، ہریالی اور بصری بے ترتیبی سے پاک علاقے کے نظارے انسان کو آرام دہ اور پرسکون کرتے ہیں ۔ خوبصورتی کا احساس جسم میں کورٹیسون کی مقدار کو بڑھاتا ہے ، اور یہ قدرتی کورٹیسون درد کے احساس کو کم کرتا ہے جو دماغی صحت کے لیے مفید ہے اور ہماری تخلیقی صلاحیت کو بحال کرنے میں مدد کرتا ہے۔
ہمارا بصری ماحول ہمارے روز مرہ کے تجربے کا لازمی حصہ ہے۔ اسے خوشگوار بنانے سے معاشرے میں عدم برداشت کے رویے کو کافی حد تک قابو کیا جا سکتا ہے۔ لہٰٖذا ہمارے شہروں اور ارد گرد کے ماحول کو پاک صاف رکھنا ہر شہری کا فرض ہے اور یہ ہمارے دین کا ایک بنیادی جز بھی ہے۔