بچوں کے ساتھ زیادتی – ایک جرم یا نفسیاتی مسئلہ؟
پاکستان میں گزرتے وقت کےساتھ بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات کی دل دہلا دینے والی خبروں میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اگرچہ جنسی زیادتی جیسے جرم، اور خاص طور سے بچے کے ساتھ ایسے گھناؤنے فعل کی کوئی تلافی نہیں ہے، لیکن اگر ان واقعات کی وجوہات کا تعین کیا جائے تو بہت سی وجوہات عام طور پہ بیان کی جاتی ہیں جیسے کہ انصاف کی عدم فراہمی سے مجرموں کی حوصلہ افزائی اور فحش مواد کی آسان رسائی یا دین سے دوری وغیرہ۔ لیکن دوسری طرف مدرسے تو دین کی درس گاہیں ہیں، وہاں دین کا علم سکھانے والے ہی آخر کیوں بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا رہے ہیں؟ اور کیوں یہ مجرم محرم و نا محرم کا لحاظ بھی بھول جاتے ہیں؟
ان سارے سوالات کا جواب یہ ہے کہ ایسے مجرم اکثر نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان میں اس حوالے سے کبھی کوئی تحقیق نہیں کی گئی نہ ہی مجرموں کی دماغی صحت پہ کبھی کوئی بات کی جاتی ہے۔ لیکن سویڈن کی ایک جیل میں زیادتی کرنے والے مجرموں پر کی گئی ایک تحقیق سے یہ انکشاف ہوا کہ وہ مختلف اقسام کی نفسیاتی بیماریوں کا شکار تھے ۔ ایسےافراد کا دماغی طور پر معذور یا پاگل ہونا ضروری نہیں بلکہ حقیقت میں یہ افراد بظاہر بالکل عام انسانوں جیسے ہی زندگی بسر کر سکتے ہیں لیکن خاص حالات یا مواقعوں پر ان کا ردِعمل عام انسانوں جیسا نہیں ہوتا۔ سب سے خطرناک اور پریشان کن پہلو یہ ہے کہ اس مرض کا علم اکثر نہ مریض کو خود ہوتا ہے نہ اطراف کے لوگوں کو۔ ان نفسیاتی بیماریوں اور دماغی صحت کے مسائل میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔
اشیزوفرینیا SCHIZOPHRENIA
یہ ایک ایسا دماغی عارضہ ہے جس میں مبتلا افراد حقیقت سے دور خیالی دنیا میں رہتے ہیں ۔ان کی شخصیت بے ربط اور منتشر ہوتی ہے ۔ اس کے باوجود بھی ان میں معاشرے کے دیگر افراد کی طرح تمام تر صلاحتیں موجود ہوتی ہیں اور ذہانت کے اعتبار سے بھی کسی سے کم نہیں ہوتے ۔ ان میں سے بہت سے افراد جنسی مسائل کا شکار رہتے ہیں اور اسی وجہ سے عصمت دری جیسے جرم کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں ۔
مینیا / ہائپر مینیا MANIA/HYPERMANIA
یہ ایک ایسی دماغی حالت ہے جس میں مریض خود کو حد سے زیادہ پُر جوش اور متحرک محسوس کرتے ہیں ۔ ان میں توانائی اس حد تک ہوتی ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ کر نے کی جستجو میں راتوں کو سو نہیں پاتے ۔ان افراد کے جنسی جزبات عام انسانوں کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ اِسی وجہ سے جُوں ہی انہیں اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کا کوئی موقع میسر آتا ہے وہ اپنے جزبات پہ قابو نہیں رکھ پاتے ۔ لیکن ایسے افراد عادی مُجرم نہیں ہوتے اور اکثر اپنی دماغی حالت بہتر ہونے ک کے بعد اپنے فعل پر شرمندہ ہوتے ہیں۔
دماغی چوٹ Neurological Impairment
کچھ مجرموں کو پیدائش کے وقت یا بچپن میں سر پہ لگنے والی چوٹ کی وجہ سے سیکھنے یا یاد رکھنے میں مشکلات رہتی ہیں ۔انہیں یہ سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے کہ کن حالات میں کس طرح کا فیصلہ درست ہوگا۔ یعنی اگر انہیں اپنی جنسی خواہش ناجائز طر یقے سے پوری کرنے کا موقع میسر آ ئے تو یہ عام انسانوں کی طرح مذہبی و معاشرتی تعلیم اور اخلاقی اقدار کا درس اپنے دماغ میں دوہرا نہیں پاتے جو ان کو اس جرم سے روکنے میں مدد ے۔ نتیجتناً وہ لمحہ موجود میں جو ٹھیک سمجھتے ہیں کر گزرتے ہیں۔
بچپن کی نفسیات کابالغ عمر پہ اثر
وہ بچے جو اپنے بچپن میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں وہ اکثر بڑے ہونے کے بعد اپنی تکلیف اور ظلم کابدلہ لینے کے لیے دوسرے بچوں کے ساتھ بھی وہی ظلم کرنا ٹھیک سمجھتے ہیں۔
اس کے علاوہ وہ لوگ جو بچپن میں والدین کی عدم توجہ اور سخت رویے کی وجہ سے اپنی زندگی سے مایوس ہو چکے ہوتے ہیں ، احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ وہ اس لیے معاشرے سے کٹ کے اکیلے زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں اور کسی بھی قسم کے تعلقات بنانے سے گریز کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے افراد اپنی جنسی ضرورت کو نا جائز طریقے سے پوراکرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔
مختصراً یہ کہ کئی مسائل ایسے ہیں کہ جن کی روک تھام پیشگی طور پر کی جا سکتی ہے تاکہ ان اشخاص کا علاج اور مدد انکے جرم کرنے سے پہلے ہی ہو سکے۔ معاشرے کا کردار صرف بچوں کو بچانے تک محدود نہیں ہے۔ اپنی آنکھ کے تاروں کی زندگی محفوظ رکھنے اور بہتر بنانے کے لئے ہمیں دماغی صحت اور نفسیاتی مسائل پر بہت زیادہ معلومات پھیلانے ، توجہ دینے اور بات کرنے کی ضرورت ہے۔